چیچہ وطنی کے گاوں

چیچہ وطنی سے ملحقہ  تمام دیہات جدید دور کی کالونیوں کی طرز پر نقشے کےتحت بنے ہوئے ہیں۔ انگریز دور میں ان علاقوں کو باقاعدہ نقشوں کی مدد سےتعمیر کیا گیا تھا۔ انگریز نے اس علاقے میں ہندوستان کے سکھوں اور ہندووں کو لا کر بسایا گیا تھا۔ انگریز نے کاشتکاری کے لیے بہترین نہری نظام اس علاقہ میں پھیلایا جس کی بدولت چیچہ وطنی کی زمین پنجاب کی سب سے زرخیز زمین ہے۔تقسيم ہند 1947ءمیں ہوئی جس کے نتیجہ میں یہ شہر چیچہ وطنی پاکستان کے حصہ میں آ گیا اور ہندووں اور سکھوں کو ہندوستان جانا پڑا

پاکستان کی آزادی کے وقت 1947 میں زیادہ تر ہندوستانی مسلمان خاندان پنجاب کے قصبوں جیسے لدھیانہ، جالندھر، امرتسر اور فیروز پور سے ہجرت کر کے چیچہ وطنی شہر کے دیہاتوں میں بھی آ کر آباد ہوئے، جس سے شہر اور دیہاتوں  کی موجودہ مسلم آبادی کی تشکیل ہوئی۔ 1947 میں پاکستان کی آزادی کے بعد اقلیتی ہندو اور سکھ یہاں سے  ہندوستان کی طرف ہجرت کرگئے

دیہات کی زندگی انتہائی سادہ اور عیش و عشرت سے عاری ہوتی ہے دیہاتی آدمی جو عام طور پر کسان ہی ہوتا ہے یہ ایک ایسی شخصیت کا حامل ہوتا ہے جس کے دم سے اس دنیا کی ساری رونق ہےہمارے ملک میں کسانوں کو وہ سہولیات میسر نہیں جو ہونی چاہئیں دیہاتی زندگی کا ماحول پاکیزہ صاف ستھرا اور ثقافتی حوالے سے بھی اہم حصہ ہےنہ آلودگی پائی جاتی ہے جس نہ دھواں آلود فضا جس سے سانس گھٹن کا شکار ہو تا ہے