چیچہ وطنی کی انفارمیشن
صوبہ پنجاب کے ضلع ساہیوال کی تحصیل چیچہ وطنی لاہور شہر سے تقریبا 200 کلومیٹر اور ساہیوال سے 45 کلومیٹر مغرب میں واقع ایک چھوٹا مگر تریتب میں بنا ہوا شہر ہے۔ چیچہ وطنی کے شمال میں دریائے راوی اور کمالیہ جبکہ جنوب میں بوریوالہ شہر 45 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ مغرب میں 118 کلومیٹر پر ملتان شہر ہے۔
تحصیل چیچہ وطنی کی 1981 میں 5,53,381 نفوس پر مشتمل تھی، 1998 کی مردم شماری میں 7،87،062 تھی جو کہ 2017 میں بڑھ کر 10،24،126 ہوئی۔اور 2023 کی مردم شماری کے مطابق تحصیل چیچہ وطنی کی کل آبادی 11،55،978 ہے ۔
تحصیل چیچہ وطنی کی کل آبادی میں سے 10،43،787 افراد دیہاتوں میں جبکہ 112،191 لوگ شہر میں آباد ہیں ۔جن میں 5،82,558 مرد 5،73،354 خواتین اور 66 ٹرانس جینڈر ہیں۔ آبادی میں 14 سال تک کی عمر کے 4،31,974 بچے جبکہ 15 سے 64 سال کی عمر تک کے 6،72,217 لوگ جبکہ 64 سال سے زائد عمر کے 51,787 بزرگ تحصیل چیچہ وطنی میں رہائش پذیر ہیں ۔ چیچہ وطنی کی آبادی میں سالانہ 2 فیصد سالانہ اضافہ ہو رہا ہے۔چیچہ وطنی کی آبادی 1981 میں 5,53,381 نفوس پر مشتمل تھی جس میں اب تقریبا دو گنا اضافہ ہو چکا ہے۔
چیچہ وطنی کا لٹریسی ریٹ 65.3 فیصد ہے یعنی 556,893 لوگ پڑھے لکھے ہیں جبکہ 2,96,547 لوگ پڑھ لکھ نہیں سکتے۔ یہاں کی مادری زبان پنجابی ہے اور تقریبا تمام لوگ ادھر پنجابی بولتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 11،30,750 لوگ پنجابی 16,805 لوگ اردو زبان ، 5,192 لوگ پشتو جبکہ 1468 لوگ سرائیکی بولتے ہیں۔تحصیل چیچہ وطنی کا کل ایریا 1591 مربع کلومیٹر ہے۔ ادھر 726 افراد ایک مربع کلومیٹر میں آباد ہیں۔
تحصیل چیچہ وطنی میں 176,270رہائشی مکان موجود ہیں ۔جن میں 153,767 پختہ گھر ہیں ، 13,267 نیم پختہ گھر ہیں جبکہ 9,236 کچے مکان ہیں
چیچہ وطنی سٹی میں 17,786رہائشی مکان ہیں ۔جن میں 16,621 پختہ گھر ہیں ، 994 نیم پختہ گھر ہیں جبکہ 171 کچے مکان موجود ہیں
چیچہ وطنی شہر 37 یونین کونسلز پر مشتمل ہے جن میں سے 3 شہری اور 34 دیہاتی یونین کونسلز ہیں۔
چیچہ وطنی میں جٹ، راجپوت، رحمانی، شیخ، ملک، آرائیں، چوہان اور غفاری برادری کی اکثریت موجود ہے۔
جب انگریزوں نے 1918 میں چیچہ وطنی کا ریلوے اسٹیشن بنایا تھا تو اس سے پہلے جو چیچہ وطنی موجود تھا اسے آج پرانی چیچہ وطنی کہتے ہیں ۔ 1921 میں اسٹیشن سے جنوب کی جانب موجودہ چیچہ وطنی شہرآباد کیا گیا جو بلاکس اور کشادہ سڑکوں پرمشتمل ہے۔ شروع میں بلاک نمبر چار، چھ، سات، آٹھ اور 12 آباد ہوئے۔ ابتداء میں شمالا جنوباً اور شرقاً غرباً دو کشادہ بازار بنائے گئے جن کے کراسنگ چوک میں ایک بڑا سا کنواں موجود تھا جہاں سے لوگ پانی بھرتے تھے۔ اب اس جگہ کو چوک شہدائے ختم نبوت المعروف فوارہ چوک کہا جاتا ہے۔ اس وقت شہر میں ہندوؤں کی اکثریت تھی۔ ہندوؤں کے لیے بلاک نمبر دو میں مندر جو تقسیم کے بعد ہندوؤں کی نقل مکانی کی وجہ سے عبادت گاہ کا درجہ کھو گیا تھا۔ 1992ء میں بابری مسجد کے سانحہ کے بعد منہدم کر دیا گیا۔بلاک نمبر تین میں سکھوں کے لیے گوردوارہ موجود تھا جسے تقسیم کے بعد ایم سی گرلز پرائمری سکول میں تبدیل کر دیا گیا۔ مسلمانوں کے لیے بلاک نمبر 12 میں جامع مسجد تعمیر کی گئی تھی جو اب بھی موجود ہے۔ دسہرہ کا تہوار بلاک نمبر تین کے مغرب میں ایک وسیع میدان میں منایا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی شمشان گھاٹ تھا جہاں ہندو چتائیں جلایا کرتے تھے۔
شہر کے تمام دیہات جدید دور کی کالونیوں کی طرز پر نقشے کےتحت بنے ہوئے ہیں۔ انگریز دور میں ان علاقوں کو باقاعدہ نقشوں کی مدد سےتعمیر کیا گیا تھا۔ انگریز نے اس علاقے میں ہندوستان کے سکھوں اور ہندووں کو لا کر بسایا گیا تھا۔ انگریز نے کاشتکاری کے لیے بہترین نہری نظام اس علاقہ میں پھیلایا جس کی بدولت اس علاقہ کی زمین پنجاب کی سب سے زرخیز زمین ہے۔تقسيم ہند 1947ءمیں ہوئی جس کے نتیجہ میں یہ شہر پاکستان کے حصہ میں آ گیا اور ہندووں اور سکھوں کو ہندوستان جانا پڑا ، ہندو اور سکھوں کے جانے کے بعد انکے مذہبی مقامات مندر اور گرودوارے ویران ہونے کی وجہ سے ان کو سکولوں وغیرہ کی شکل دے دی گئی ہے۔
پاکستان کی آزادی کے وقت 1947 میں زیادہ تر ہندوستانی مسلمان خاندان پنجاب کے قصبوں جیسے لدھیانہ، جالندھر، امرتسر اور فیروز پور سے ہجرت کر کے چیچہ وطنی جیسے قصبوں میں آباد ہوئے، جس سے شہر کی موجودہ مسلم آبادی کی تشکیل ہوئی۔ مسلمانوں کی اکثریتی آبادی نے مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کی حمایت کی۔ 1947 میں پاکستان کی آزادی کے بعد، اقلیتی ہندو اور سکھ پرانے شمال مغربی پنجاب کے علاقوں سے ہندوستان کی طرف ہجرت کرگئے، جب کہ ہندوستان کے شمال مشرقی پنجاب کے علاقوں سے مسلمان مہاجرین شمال مغربی پنجاب کے علاقوں بشمول ساہیوال ضلع کے علاقوں میں ہجرت کرگئے۔ جانے والے انگریزوں نے پاکستان اور ہندوستان کی قومی سرحدیں کھینچیں۔ دوسرے لفظوں میں، پرانے برطانوی پنجاب صوبہ کو 1947 میں دو نئے پنجابوں میں تقسیم کیا گیا تھا – مسلم اکثریت والا پنجاب اور سکھ اور ہندو اکثریت والا پنجاب۔
نیلی بار کی مشہور ساہیوال نسل کی گائے اور اعلیٰ نسل کی زیادہ دودھ دینے والی بھینسیں یہاں پائی جاتی ہیں۔ اس شہر میں ہر ماہ پاکستان کی سب سے بڑی منڈی مویشیاں لگتی ہے۔ دور دور سے لوگ گاے بھینسیں اور دوسرے جانور بیچنے اور خریدنے آتے ہیں
3
5